بٹ کوائن کا عالمی فائنانشل سسٹم میں کردار تیزی سے بدل رہا ہے، اور حالیہ اہم پیش رفت اس کی سمت کا تعین کر رہی ہیں۔ جیسے ہی گولڈ تاریخی سطحوں پر پہنچا، بٹ کوائن کا اسٹور آف ویلیو ہونے کا نظریہ دوبارہ بحث کا مرکز بن گیا۔ دوسری طرف، روس اب بٹ کوائن کو آئل ٹریڈ کے لیے استعمال کر رہا ہے، جو انٹرنیشنل فائنانشل ٹرانزیکشنز میں ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے۔
اسی دوران، ایک امریکی کانگریس مین نے بٹ کوائن ریزروز کو قومی فائنانشل پالیسی کا حصہ بنانے کی تجویز دی ہے، جو اس کی سرکاری سطح پر قبولیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ حالانکہ حالیہ دنوں میں بٹ کوائن کی قیمت میں کمی دیکھی گئی، لیکن ای ٹی ایف انویسٹرز کی ہولڈنگ برقرار ہے، جو انسٹیٹیوشنل کانفیڈینس کے مضبوط ہونے کی علامت ہے۔ تاہم، بٹ کوائن کی ولٹیلٹی ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے، کیونکہ لیکوئیڈیٹی چیلنجز مارکیٹ کے استحکام پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔
یہ تمام پیش رفت کرپٹو مارکیٹ کے مستقبل میں مواقع اور خدشات، دونوں کو اجاگر کرتی ہیں۔ اگر انسٹیٹیوشنل اڈاپشن میں اضافہ ہوتا رہا اور ریگولیٹری معاملات حل ہو گئے، تو بٹ کوائن کی پوزیشن مزید مستحکم ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر لیکوئیڈیٹی مسائل برقرار رہے اور سینٹیمنٹس کمزور ہوئے، تو ولٹیلٹی مزید بڑھ سکتی ہے۔
گولڈ کی تاریخی ریلی نے بٹ کوائن کے “اسٹور آف ویلیو” ہونے پر بحث چھیڑ دی
حالیہ دنوں میں گولڈ کی قیمتیں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں، جس کے بعد بٹ کوائن کے اسٹور آف ویلیو ہونے پر ایک بار پھر بحث شروع ہو گئی ہے۔ جب فائنانشل مارکیٹس غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوتی ہیں، تو انسٹیٹیوشنل انویسٹرز زیادہ تر گولڈ کو ایک سیف ہیون ایسٹ کے طور پر اپناتے ہیں۔ بٹ کوائن، جو اپنی فکسڈ سپلائی اور ڈی سینٹرلائزڈ نیچر کی وجہ سے گولڈ سے موازنہ کیا جاتا ہے، اس بار گولڈ کی ریلی کو فالو نہیں کر سکا۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا بٹ کوائن واقعی ایک قابل اعتماد ہیج ہے یا نہیں؟
بٹ کوائن کی ولٹیلٹی اب بھی اس کی اسٹور آف ویلیو کے طور پر اڈاپشن میں ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ گولڈ نے صدیوں سے اپنی اسٹیبلٹی برقرار رکھی ہے، جب کہ بٹ کوائن نے اپنے مختصر دورانیے میں شدید پرائس فلیکچوایشنز دیکھی ہیں، جس کی وجہ سے کچھ روایتی انویسٹرز اس میں سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ تاہم، بٹ کوائن کے سپورٹرز کا ماننا ہے کہ جیسے جیسے مارکیٹ میچور ہوتی جائے گی، بٹ کوائن کا “ڈیجیٹل گولڈ” بننے کا نظریہ مزید مضبوط ہو جائے گا۔ خاص طور پر، انسٹیٹیوشنل پلیئرز، جیسے ای ٹی ایفز اور سورن ویلتھ فنڈز، کی شمولیت سے بٹ کوائن کی پرائس اسٹیبلٹی میں بہتری آ سکتی ہے۔
مستقبل میں، اگر گلوبل فائنانشل مارکیٹس مزید غیر مستحکم ہوئیں اور انفلیشن خدشات برقرار رہے، تو بٹ کوائن کی ڈیمانڈ بطور ہیج بڑھ سکتی ہے۔ تاہم، اسے گولڈ کا مقابلہ کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنی ٹریڈنگ انوائرمنٹ کو زیادہ مستحکم کرنا ہوگا اور لیکوئیڈیٹی مسائل پر قابو پانا ہوگا۔
مارکیٹ پر اثرات:
اگر بٹ کوائن کی ولٹیلٹی کم ہوتی ہے، تو یہ مزید انسٹیٹیوشنل انویسٹرز کو متوجہ کر سکتا ہے، جس سے لانگ ٹرم پرائس گروتھ ممکن ہے۔ تاہم، اگر گولڈ بٹ کوائن سے بہتر پرفارم کرتا رہا، تو بٹ کوائن کا مین اسٹریم اسٹور آف ویلیو کے طور پر تسلیم کیا جانا مزید تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔
روس کا چین اور بھارت کے ساتھ آئل ٹریڈ میں بٹ کوائن کا استعمال
روس نے چین اور بھارت کے ساتھ آئل ٹریڈ کے لیے بٹ کوائن اور دیگر کرپٹو کرنسیز کو اپنانے کا فیصلہ کیا ہے، جو گلوبل فائنانشل سسٹم میں ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے۔ مغربی پابندیوں کی وجہ سے روس کو SWIFT بینکنگ سسٹم تک رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے، اور کرپٹو کو بطور متبادل استعمال کرنے سے روس اپنی ٹریڈ سیٹلمنٹ کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اس پیش رفت نے نہ صرف انٹرنیشنل ٹریڈ میں بٹ کوائن کی افادیت کو اجاگر کیا ہے بلکہ ڈی-ڈالرائزیشن کے وسیع تر رجحان کی نشاندہی بھی کی ہے، جہاں ممالک امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بٹ کوائن اپنی ڈی سینٹرلائزڈ اور بارڈرلیس ٹرانزیکشن خصوصیات کی وجہ سے روایتی فائنانشل سسٹمز سے مختلف ہے، لیکن اس کا جیوپولیٹیکل ٹریڈ میں استعمال مغربی ممالک کے لیے ریگولیٹری خدشات کو جنم دے سکتا ہے۔ ویسٹرن نیشنز ممکنہ طور پر بٹ کوائن ٹرانزیکشنز پر سخت نگرانی بڑھائیں گی تاکہ سینکشن ایویژن کو روکا جا سکے۔ اس کے نتیجے میں کرپٹو ایکسچینجز اور فائنانشل انسٹیٹیوشنز پر سخت کمپلائنس اقدامات نافذ کیے جا سکتے ہیں، جو گلوبل کرپٹو لیکوئیڈیٹی کو متاثر کر سکتے ہیں۔
روس کی اس پالیسی کے اثرات صرف اس کی اپنی معیشت تک محدود نہیں رہیں گے۔ اگر دیگر سینکشنڈ نیشنز بھی اس ماڈل کو اپناتی ہیں، تو بٹ کوائن کا کردار گلوبل فائنانشل سسٹم میں مزید بڑھ سکتا ہے۔ تاہم، اگر ریگولیٹری دباؤ میں اضافہ ہوا، تو بٹ کوائن کے فائنانشل سیٹلمنٹ کے طور پر استعمال پر ممکنہ پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں۔
مارکیٹ پر اثرات:
اگر بٹ کوائن کو مزید انٹرنیشنل ٹریڈ میں استعمال کیا جانے لگا، تو اس کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے پرائس اپ سائیڈ دیکھی جا سکتی ہے۔ تاہم، اگر بٹ کوائن سے متعلق ریگولیٹری کریک ڈاؤن سخت ہو گیا، تو یہ شارٹ ٹرم ولٹیلٹی کا سبب بن سکتا ہے۔
امریکی کانگریس مین کا بٹ کوائن ریزروز کی تجویز – نیشنل فائنانشل پالیسی میں بڑی پیش رفت
ایک امریکی کانگریس مین نے بٹ کوائن ریزروز کو ملک کی نیشنل فائنانشل اسٹریٹیجی کا حصہ بنانے کے لیے ایک بل پیش کیا ہے۔ اس تجویز کے مطابق، امریکی حکومت کو اپنی ٹریژری میں بٹ کوائن رکھنا چاہیے، جیسے کہ وہ گولڈ کو ہیج کے طور پر استعمال کرتی ہے، تاکہ انفلیشن اور فائنانشل انسٹیبیلیٹی کے خلاف تحفظ حاصل کیا جا سکے۔ اس اقدام کو پالیسی سطح پر بٹ کوائن کی لانگ ٹرم ویلیو کے بڑھتے ہوئے اعتراف کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
یہ بل ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایل سلواڈور اور روس سمیت کئی ممالک بٹ کوائن کو اپنی فائنانشل پالیسی میں شامل کر رہے ہیں۔ بل کے حمایتیوں کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے جیوپولیٹیکل اور فائنانشل رسک میں اضافہ ہو رہا ہے، بٹ کوائن فیاٹ ڈیویلیوایشن کے خلاف ایک مؤثر ہیج ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم، ناقدین بٹ کوائن کی ولٹیلٹی اور ریگولیٹری اوور سائیٹ کی کمی کو ایک بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں، جو نیشنل فائنانشل اسٹیبلٹی کے لیے چیلنج بن سکتا ہے۔
اگر یہ بل حمایت حاصل کر لیتا ہے، تو یہ بٹ کوائن کی لیجٹیمیسی کے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہو سکتا ہے۔ حکومت کی جانب سے بٹ کوائن کو اپنانے سے انسٹیٹیوشنل کانفیڈینس میں زبردست اضافہ ہوگا، جو روایتی فائنانشل انسٹیٹیوشنز کے درمیان بٹ کوائن کی اڈاپشن کو مزید فروغ دے سکتا ہے۔ تاہم، سیاسی مخالفت اور ریگولیٹری خدشات اس تجویز کی منظوری میں بڑی رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
مارکیٹ پر اثرات:
اگر امریکی حکومت بٹ کوائن ریزروز رکھنے کا فیصلہ کرتی ہے، تو یہ مارکیٹ میں بُلش سینٹیمنٹس پیدا کر سکتا ہے، اور انسٹیٹیوشنل انویسٹرز کا بٹ کوائن پر لانگ ٹرم کانفیڈینس مزید بڑھ سکتا ہے۔ تاہم، بل کی منظوری سے متعلق غیر یقینی صورتحال شارٹ ٹرم پرائس فلیکچوایشنز کا سبب بن سکتی ہے۔
25% پرائس ڈراپ کے باوجود 95% بٹ کوائن ای ٹی ایف انویسٹرز نے اپنی ہولڈنگ برقرار رکھی
حالیہ ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ بٹ کوائن کی قیمت میں 25% کمی کے باوجود 95% ای ٹی ایف انویسٹرز نے اپنی ہولڈنگ برقرار رکھی ہے۔ یہ ریزیلینس مارکیٹ سینٹیمنٹس میں ایک بڑی تبدیلی کو ظاہر کرتی ہے، کیونکہ اب انویسٹرز بٹ کوائن کو ایک لانگ ٹرم ایسٹ کے طور پر دیکھ رہے ہیں، نہ کہ ایک اسپیکولیٹو انسٹرومنٹ کے طور پر۔ ماضی میں جب بٹ کوائن کی قیمت میں کمی آتی تھی، تو بڑے پیمانے پر سیل-آف دیکھنے کو ملتا تھا، لیکن ای ٹی ایف انویسٹمنٹ نے ایک زیادہ اسٹیبل انویسٹر بیس متعارف کرائی ہے۔
اس ٹرینڈ کی ایک بڑی وجہ بٹ کوائن میں بڑھتی ہوئی انسٹیٹیوشنل پارٹیسپیشن ہے، جو ای ٹی ایف کے ذریعے مزید فروغ پا رہی ہے۔ انسٹیٹیوشنل انویسٹرز عام طور پر لانگ ٹرم اسٹریٹیجیز پر عمل کرتے ہیں، جس کی وجہ سے پینک سیلنگ کم ہو جاتی ہے۔ اس رویے نے بٹ کوائن کی پرائس اسٹیبلیٹی کو سپورٹ فراہم کی ہے، حالانکہ مجموعی طور پر مارکیٹ میں ولٹیلٹی برقرار ہے۔ مزید برآں، بہت سے ای ٹی ایف ہولڈرز موجودہ پرائس ڈراپ کو ایک بائینگ اپورچونٹی کے طور پر دیکھ رہے ہیں، نہ کہ مارکیٹ رسک کے طور پر۔
اگر ای ٹی ایف انویسٹرز مارکیٹ فلیکچوایشنز کا اسی طرح سامنا کرتے رہے، تو بٹ کوائن کی مارکیٹ میچورٹی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ مستقبل میں اگر انسٹیٹیوشنل اڈاپشن میں اضافہ ہوا، تو بٹ کوائن کی ولٹیلٹی میں کمی اور ڈاؤن ٹرینڈز میں بہتر پرائس سپورٹ دیکھی جا سکتی ہے۔ تاہم، ریگولیٹری ڈیولپمنٹس اور میکرو اکنامک کنڈیشنز اب بھی انویسٹر سینٹیمنٹ پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔
مارکیٹ پر اثرات:
ای ٹی ایف انویسٹرز کی مضبوط ہولڈنگ بٹ کوائن کے لانگ ٹرم ایسٹ کے طور پر اسٹیٹس کو مزید مستحکم کرتی ہے۔ اس سے نہ صرف پرائس ولٹیلٹی میں کمی آ سکتی ہے، بلکہ انسٹیٹیوشنل انویسٹمنٹ بھی مزید بڑھ سکتی ہے۔
بٹ کوائن کی ولٹیلٹی نئی بلند ترین سطح پر، لیکوئیڈیٹی مسائل اور میکرو اکنامک غیر یقینی صورتحال بڑھ رہی ہے
بٹ کوائن کی ولٹیلٹی میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، جس کی بنیادی وجہ لیکوئیڈیٹی کنسرنز اور میکرو اکنامک انسٹیبیلیٹی بتائی جا رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹریڈنگ والیومز میں کمی اور مارکیٹ ڈپتھ کے کم ہونے نے بٹ کوائن کو شارپ پرائس موومنٹس کے لیے زیادہ حساس بنا دیا ہے۔ اس صورتحال نے انویسٹرز میں خدشات بڑھا دیے ہیں، خاص طور پر اس وقت جب امریکا میں ریگولیٹری انسرٹنٹی مارکیٹ سینٹیمنٹس پر اثر انداز ہو رہی ہے۔
بٹ کوائن کی لیکوئیڈیٹی چیلنجز کے پیچھے ایک بڑی وجہ انسٹیٹیوشنل پارٹیسپیشن میں تبدیلی ہے۔ کچھ بڑے فائنانشل پلیئرز نے بٹ کوائن کی ایکسپوزر کو محدود کر دیا ہے، جس کی بنیادی وجہ ریگولیٹری رسکس اور میکرو اکنامک انسٹیبیلیٹی ہے۔ اس کی وجہ سے مارکیٹ لیکوئیڈیٹی میں کمی آئی ہے، اور نتیجتاً، بٹ کوائن کی قیمت میں شدید اتار چڑھاؤ دیکھا جا رہا ہے۔ مزید برآں، جیوپولیٹیکل ٹینشنز اور مانیٹری پالیسی شفٹس نے بھی مارکیٹ میں غیر یقینی صورتحال کو مزید بڑھا دیا ہے۔
اگرچہ شارٹ ٹرم ٹریڈرز کے لیے ولٹیلٹی ایک بڑا چیلنج بن سکتی ہے، لیکن لانگ ٹرم ہولڈرز زیادہ تر اس سے متاثر نہیں ہوئے۔ بلکہ، کئی بڑے انویسٹرز نے بٹ کوائن کی ایکیومولیشن جاری رکھی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس پرائس فلیکچوایشن کو ایک موقع کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اگر مارکیٹ لیکوئیڈیٹی میں بہتری آئی اور انسٹیٹیوشنل کانفیڈینس بحال ہوا، تو وقت کے ساتھ ساتھ بٹ کوائن کی پرائس اسٹیبلیٹی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر لیکوئیڈیٹی کے مسائل برقرار رہے، تو بٹ کوائن مزید شارپ پرائس موومنٹس کا سامنا کر سکتا ہے۔
مارکیٹ پر اثرات:
بہت زیادہ ولٹیلٹی شارٹ ٹرم ٹریڈرز کو متاثر کر سکتی ہے، لیکن لانگ ٹرم انویسٹرز کے لیے یہ ایک بائینگ اپورچونٹی بھی ہو سکتی ہے۔ لیکوئیڈیٹی میں بہتری اور ریگولیٹری کلیئرٹی وہ دو بڑے عوامل ہیں جو بٹ کوائن کی مارکیٹ اسٹیبلیٹی کے لیے اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔
اہم نکات:
- گولڈ بمقابلہ بٹ کوائن: گولڈ کی ریکارڈ بلند سطحوں پر پہنچنے کے بعد بٹ کوائن کے اسٹور آف ویلیو ہونے پر دوبارہ بحث چھڑ گئی ہے، جبکہ بٹ کوائن کی ولٹیلٹی اب بھی ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔
- روس کی کرپٹو ٹریڈ: روس اب بٹ کوائن کو چین اور بھارت کے ساتھ آئل ٹریڈ کے لیے استعمال کر رہا ہے، جس سے ڈی-ڈالرائزیشن میں تیزی آ رہی ہے، لیکن ساتھ ہی ریگولیٹری خدشات بھی بڑھ رہے ہیں۔
- بٹ کوائن ریزرو بل: ایک امریکی کانگریس مین نے نیشنل بٹ کوائن ریزروز کے قیام کے لیے بل پیش کیا، جو بٹ کوائن کو فائنانشل ہیج کے طور پر تسلیم کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔
- ای ٹی ایف انویسٹرز کی ریزیلینس: 25% پرائس ڈراپ کے باوجود 95% بٹ کوائن ای ٹی ایف ہولڈرز نے اپنی ہولڈنگ برقرار رکھی، جو انسٹیٹیوشنل کانفیڈینس کی مضبوطی کو ظاہر کرتا ہے۔
- بٹ کوائن لیکوئیڈیٹی کنسرنز: مارکیٹ ولٹیلٹی ایک نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، جس کی وجہ ٹریڈنگ والیوم میں کمی اور میکرو اکنامک انسرٹنٹی ہے۔