بلاک چین کو اگر آپ کسی مثال کےذریعے سمجھنا چاہیں تو کتابوں کا ایک بہت بڑا بین الاقوامی کلب فرض کر لیں جہاں پوری دنیا سے لوگ جڑےہوں ۔ لوگ اس کلب سے کتابیں لے کر پڑھتے ہوں ۔ یہاں کا سسٹم کچھ ایسا ہو کہ جو بھی کتاب کوئی لے یا واپس کرے تو اس کا ریکارڈ رکھا جائے لیکن اس میں روایتی طریقہ استعمال نہ ہو کہ کوئی ایک نگران یا لائبریرین ان سب کا ریکارڈ رکھے بلکہ ہرشخص خود ہی وہاں اپنے ریکارڈ کا اندراج کر کے محفوظ کردیا کرے ۔ اب کوئی بھی کتاب کلب سے لی جائے گی یا واپس جمع کرائی جائے گی تو ہر شخص کے ہاں اس کا ریکارڈ اپ ڈیٹ ہوجائے گا اور یوں سب کی طرف سے اس ریکارڈ کے درست ہونےکی تصدیق ہوجائے گی۔ ٹھیک اسی طرح بلاک چین ٹیکنالوجی کام کرتی ہے ۔
بلاک چین کا آغاز:
بلاک چین ٹیکنالوجی کا تصور سب سے پہلے 2008 میں ایک نامعلوم شخص (یا گروپ) نے پیش کیا جو ستوشی ناکاموٹو کے نام سے معروف تھا۔ ناکاموٹو نے ایک ڈی سنٹرلائز ڈ ڈیجیٹل کرنسی بنائی تھی جس کا نام بٹ کوائن رکھا تھا اور اسی کے ساتھ اس نے اس بلاک چین کو بھی دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست اور قابل اعتماد طریقے سے لین دین اور تجارت کرسکیں اور انہیں کسی سنٹرل اتھارٹی جیسے بینک یا کسی اورادارے کا محتاج نہ ہونا پڑے۔ ویسے تو بلاک چین کا تصور اس سے پہلے بھی مختلف تحقیقات میں پیش کیا گیا تھا لیکن ناکاموٹو نے جس طریقے سے اس کے اندرموجود تمام قسم کی کمزوریوں اور خامیوں کو دور کر کے اسے ایک نئی زندگی دی تھی ۔
ایک بلاک چین بنیادی طور پر ٹرانزیکشنزکا ایک ڈیجیٹل لیجر (کھاتہ) ہوتاہے جو بلاک چین کے پورے نیٹ ورک میں موجود کمپیوٹر سسٹمز میں ڈپلیکیٹ اور تقسیم کیا جاتا ہے۔ چین میں ہر بلاک میں متعدد ٹرانزیکشنز ہوتی ہیں اور جب بھی کوئی نئی ٹرانزیکشن ہوتی ہے تو اس کو نیٹ ورک پر جڑے ہوئے ہر کمپیوٹر کے لیجر میں شامل کر دیا جاتا ہے ۔ اس طریقے سے سارا ریکارڈ ڈی سنٹرلائزڈ ہوتا ہے اورکسی ایک اتھارٹی کو اس پرمکمل کنٹرول نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اس کی شفافیت اور سیکورٹی کا معیار اعلی ہوجاتا ہے۔
بلاک چین کیسے کام کرتا ہے:
بلاک چین کو سمجھانے کیلئے ہم نے شروع میں ایک کتابوں کے عالمی کلب کی مثال دی تھی ۔ اس مثال کو دوبارہ لیتے ہیں ۔ جب بھی کوئی ممبر کلب سے کتاب لینا چاہے تو وہ کلب کے تمام ممبران کے سامنے اپنے اس ارادے کا اظہار کرتا ہے ۔اس کے بعد کلب کے تمام ممبران یہ دیکھتے ہیں کہ یہ کتاب دستیاب ہے یا نہیں اور جو ممبر کتاب لینا چاہتا ہے ا س کی ویریفکیشن کرتے ہیں ۔ جب ویریفکیشن ہوجاتی ہے اور کتاب دستیاب ہوتی ہے تو مطلوبہ ممبرکو کتاب دے دی جاتی ہے اور اس معاملےکا ریکارڈ ہر ممبر اپنے پاس درج کر کے پرانے ریکارڈ (بلاک)کے ساتھ جوڑ دیتا ہے یوں لین دین کی ایک چین بن جاتی ہے اور اس کے بعد اس ریکارڈ کو ممبران کی اکثریت کے اتفاق کے بغیر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔یہی طریقہ کار بلاک چین میں ہوتا ہے جہاں کسی قسم کی ٹرانزیکشنز ہوتی ہیں تو اس کی ویریفکیشن کے بعد نیٹ ورک سے جڑے سارے کمپیوٹرز اس کو بلاک میں شامل کر کے پرانے بلاکس کی چین کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں جس کے بعد یہ اکثریت کی رضامندی کے بغیر ناقابل ترمیم ہوجاتا ہے۔
بلاک چین کا ارتقاء:
شروع شروع میں بلاک چین صرف بٹ کوائن کے ساتھ منسلک تھا لیکن اس کی صلاحیت ڈیجیٹل کرنسی تک محدود نہیں تھی بلکہ یہ اس سے کہیں زیادہ پوٹینشل والی ٹیکنالوجی تھی۔ 2015 میں، ایتھیریم آیا جس نے سمارٹ کنٹریکٹس کا تصور پیش کیا۔ یہ ایسے خود کار طور پر مکمل ہونے والے کنٹریکٹس ہیں جن کی شرائط پہلے سے ہی براہ راست کوڈ نگ کر دی جاتی تھیں ۔ اس کے بعد بلاک چین کی ایپلی کیشنز کے لیے سپلائی چین مینجمنٹ، ووٹنگ سسٹمزاوردوسرے بہت سارے شعبہ جات کے دروازے کھل گئے ۔
چیلنجز اور ڈویلپمنٹس:
ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی انقلابی صلاحیت کے باوجود بلاک چین کو کئی چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔ان میں اسکیل ایبلٹی، زیادہ توانائی کا استعمال اور ٹرانزیکشنز کی سست رفتاری جیسے مسائل تھے۔ جیسے بٹ کوائن کی بلاک چین فی سیکنڈ ایک محدود تعداد میں ٹرانزیکشنز کو ہینڈل کر سکتی ہے، جس کی وجہ سے زیادہ جب ڈیمانڈ زیادہ ہونے لگتی ہے جس کی وجہ سے پھر نیٹ ورک کی رفتار میں سست رفتاری پیدا ہونے لگتی ہے۔
ان مسائل کو دور کرنے کیلئے کچھ نئے حل پیش کیے گئے جیسے Directed Acyclic Graphs (DAGs)۔
DAGs کا تعارف:
DAG ایک مختلف قسم کا ڈیٹا سٹرکچر ہے جو روایتی بلاک چین کا متبادل مانا جاتا ہے۔ ایک واحد، خطی بلاک چین کے بجائے، DAGs سنگل لائن چین کے بجائے گراف سٹرکچر کا استعمال کرتے ہیں جہاں ہر ٹرانزیکشن کو متعدد دوسری ٹرانزیکشنز سے جوڑا جاتا ہے۔ اس سے بہت زیادہ اسکیل ایبلٹی اور ٹرانزیکشنز کی تیز تر ین پروسیسنگ ممکن ہو جاتی ہے۔
DAG کی عملی مثال:
DAG کی ایک اہم مثال IOTA ہے، جو انٹرنیٹ آف تھنگز (IoT) کے لیے تیار کی گئی ایک کرپٹو کرنسی ہے۔
IOTA جیسے سسٹمز میں ہوتا یہ ہے ہر نئی ٹرانزیکشن پچھلی دو ٹرانزیکشنز کی تصدیق کرتی ہے جس سے ایک دوسرے جڑی ٹرانزیکشنز کا ایک الجھا ہوا جال بن جاتا ہے۔ اس طریقہ کار کی وجہ سے مائنرز کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے اور یوں ٹرانزیکشن فیس کم ہوتی ہے ۔ ساتھ ہی جیسے جیسے مزید ٹرانزیکشنز ہوتی جاتی ہیں تو نیٹ ورک کی رفتار بڑھتی جاتی ہے ۔
موجودہ صورتحال:
آج بلاک چین ٹیکنالوجی ترقی کی شاہراہ پر سبک رفتاری سے گامزن ہے۔اس کی کارکردگی، سیکیورٹی اور اسکیل ایبلٹی کو بہتر بنانے پر کئی سارے پروجیکٹس کام کر رہے ہیں۔ بلاک چین کو مختلف انڈسٹریز جیسے فنانس، ہیلتھ کیئر، سپلائی چین مینجمنٹ اورانٹرٹینمٹ میں ضم کیا جا رہا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ روایتی بلاک چینز کی کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے DAGs اور دیگر جدید ڈیٹا سٹرکچرز پر کام کیا جارہا ہے ۔
نتیجہ:
بلاک چین ٹیکنالوجی ڈی سنٹرلائزڈ ہونے اور شفافیت کے ساتھ مضبوط سیکیورٹی کی وجہ سے کئی سارے شعبوں میں انقلابی تبدیلی لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگرچہ اسے ابھی بھی اسکیل ایبلٹی، زیادہ توانائی کا استعمال اور ٹرانزیکشنز کی سست رفتاری جیسے چیلنجز کا سامنا ہے، لیکن DAGs جیسے جدید ڈیٹا اسٹرکچرزاسکیل ایبل مؤثر مستقبل کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ جیسے جیسے ہم بلاک چین اور DAG ٹیکنالوجی مزید ترقی کرتی جاتی ہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں ٹرانزیکشنز کے انتظام اور ڈیٹا مینج کرنےکے طریقوں میں مزید بہتری آتی جائے گی جو ہماری ڈیجیٹل دنیا کی تیز رفتار ترقی کے ساتھ ہم آہنگ ہوں گی۔